(1) یعنی اس کی تقدیر اور مشیت سے ہی اس کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے نزول کا سبب کفار کا یہ قول ہے۔ کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو دنیا کی مصیبتیں انہیں نہ پہنچتیں۔ (فتح القدیر)۔
(2) یعنی وہ جان لیتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے۔ اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہی پہنچا ہے ، پس وہ صبر اور رضا بالقضا کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ابن عباس (رضي الله عنه) ما فرماتے ہیں، اس کے دل میں یقین راسخ کر دیتا ہے جس سے وہ جان لیتا ہے کہ اس کو پہنچنے والی چیز اس سے چوک نہیں سکتی اور جو اس سے چوک جانے والی ہے، وہ اسے پہنچ نہیں سکتی۔ (ابن کثیر)۔
(1) یعنی ہمارے رسول کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ اس کا کام صرف تبلیغ ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں، اللہ کا کام رسول بھیجنا ہے، رسول کا کام تبلیغ اور لوگوں کا کام تسلیم کرنا ہے۔ (فتح القدیر)۔
(1) یعنی تمام معاملات اسی کو سونپیں، اسی پر اعتماد کریں اور صرف اسی سے دعا والتجا کریں، کیونکہ اس کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے ہی نہیں۔
(1) یعنی جو تمہیں عمل صالح اور اطاعت الٰہی سے روکیں، سمجھ لو وہ تمہارے خیر خواہ نہیں، دشمن ہیں۔
(2) یعنی ان کے پیچھے لگنے سے بچو۔ بلکہ انہیں اپنے پیچھے لگاؤ تاکہ وہ بھی اطاعت الٰہی اختیار کریں، نہ کہ تم ان کے پیچھے لگ کر اپنی عاقبت خراب کرلو۔
(3) اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مکے میں مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ اس وقت ہجرت کا حکم نہایت تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا۔ لیکن ان کے بیوی بچے آڑے آگئے اور انہوں نے انہیں ہجرت نہیں کرنے دی۔ پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے پاس آ گئے تو دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں نے دین میں بہت زیادہ سمجھ حاصل کرلی ہے تو انہیں اپنے بیوی بچوں پر غصہ آیا، جنہوں نے انہیں ہجرت سے روکے رکھا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے اس میں انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی تلقین فرمائی۔ (سنن الترمذي، تفسير سورة التغابن)۔
(1) جو تمہیں کسب حرام پر اکساتے اور اللہ کے حقوق ادا کرنے سے روکتے ہیں، پس اس آزمائش میں تم اسی وقت سرخ رو ہوسکتے ہو، جب تم اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرو۔ مطلب یہ ہوا کہ مال واولاد جہاں اللہ کی نعمت ہیں، وہاں یہ انسان کی آزمائش کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا اطاعت گزار کون ہے اور نافرمان کون؟
(2) یعنی اس شخص کے لیے جو مال واولاد کی محبت کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کو ترجیح دیتا ہے اور اس کی معصیت سے اجتناب کرتا ہے۔
(1) یعنی اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی باتوں کو توجہ اور غور سے سنو اور ان پر عمل کرو۔ اس لیے کہ صرف سن لینا بے فائدہ ہے، جب تک عمل نہ ہو۔
(2) خَيْرًا أَيْ: إِنْفَاقًا خَيْرًا، يَكُن الإِنْفَاقُ خَيْرًا انفاق عام ہے، صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔
(1) یعنی اخلاص نیت اور طیب نفس کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے۔
(2) یعنی کئی کئی گنا بڑھانے کے ساتھ وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا۔
(3) وہ اپنے اطاعت گزاروں کو أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً اجر وثواب سے نوازتا ہے اور معصیت کاروں کا فوری مواخذہ نہیں فرماتا۔