[1] یہ آیت حضرت زینب (رضی الله عنها) کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ (رضي الله عنه) ، جو اگرچہ اصلاً عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) نے انہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو ہبہ کردیا تھا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رضی الله عنها) کو نکاح کا پیغام بھیجا، جس پر انہیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وجاہت کی بناء پر تامل ہوا، کہ زید (رضي الله عنه) ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئےکار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے۔ چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب (رضی الله عنها) وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا اور ان کا باہم نکاح ہوگیا۔
[1] لیکن چونکہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب وشرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید (رضي الله عنه) کے دامن پر غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی جس کا تذکرہ حضرت زید (رضي الله عنه) نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرما دیا تھا کہ زید (رضي الله عنه) کی طرف سےطلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب (رضی الله عنها) کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ا یک کاری ضرب لگا کر واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں ان ہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت زید (رضي الله عنه) پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انہیں قبول اسلام کی توفیق دی اور غلامی سے نجات دلائی، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کا احسان ان پر یہ تھا کہ ان کی دینی تربیت کی۔ ان کو آزاد کرکے اپنا بیٹا قرار دیا اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کرادیا۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب (رضی الله عنها) سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ (صلى الله عليه وسلم) ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرنا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا، اس کے باوجود آپ (صلى الله عليه وسلم) کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد یہی ہے کہ یہ نکاح ہوگیا، جس سے یہ بات سب کے ہی علم میں آجائے گی۔
[2] یعنی نکاح کے بعد طلاق دی اور حضرت زینب (رضی الله عنها) عدت سے فارغ ہوگئیں۔
[3] یعنی یہ نکاح معروف طریقے کے برعکس صرف اللہ کے حکم سے نکاح قرار پاگیا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی۔
[4] یہ حضرت زینب (رضی الله عنها) سے، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اقتضا لےپالک بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے۔
[5] یعنی پہلے سے ہی تقدیر الٰہی میں تھا جو بہرصورت ہو کر رہنا تھا۔
[1] یہ اسی واقعہ نکاح زینب (رضی الله عنها) کی طرف اشارہ ہے، چونکہ یہ نکاح آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے حلال تھا، اس لئے اس میں کوئی گناہ اور تنگی والی بات نہیں ہے۔
[2] یعنی گزشتہ انبیا علیہم السلام بھی ایسے کاموں کے کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض قرار دیئے جاتے تھے چاہے قومی اور عوامی رسم ورواج ان کے خلاف ہی ہوتے۔
[3] یعنی خاص حکمت ومصلحت پر مبنی ہوتے ہیں، دنیوی حکمرانوں کی طرح وقتی اور فوری ضرورت پر مشتمل نہیں ہوتے، اسی طرح ان کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے جس کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
[1] اس لئے کسی کا ڈر یا سطوت انہیں اللہ کا پیغام پہچانے میں مانع بنتا تھا نہ طعن وملامت کی انہیں پروا ہوتی تھی۔
[2] یعنی ہر جگہ وہ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے موجود ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کی مدد کے لئے کافی ہے اور اللہ کے دین کی تبلیغ ودعوت میں انہیں جو مشکلات آتی ہیں، ان میں وہ ان کی چارہ سازی فرماتا اور دشمنوں کے مذموم ارادوں اور سازشوں سے انہیں بچاتا ہے۔
[1] اس لئے وہ زید بن حارثہ (رضي الله عنه) کے بھی باپ نہیں ہیں، جس پر انہیں مورد طعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کیوں کرلیا؟ ایک زید (رضي الله عنه) ہی کیا، وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ کیونکہ زید (رضي الله عنه) تو حارثہ کے بیٹے تھے، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے تو انہیں منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا اور جاہلی دستور کے مطابق انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا، حقیقتاً وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے صلبی بیٹے نہیں تھے۔ اس لئے ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ (رضي الله عنه) ہی کہا جاتا تھا، علاوہ ازیں حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے تین بیٹے، قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک ابراہیم بچہ ماریہ قبطیہ (رضی الله عنها) کے بطن سے ہوا۔ لیکن یہ سب کے سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے، ان میں سے کوئی بھی عمر رجولیت کو نہیں پہنچا۔ بنابریں آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صلبی اولاد میں سے بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جس کے آپ باپ ہوں (ابن کثیر)۔
[2] خَاتَمٌ مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے۔ یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نبوت ورسالت کا خاتمہ کردیا گیا، آپ (صلى الله عليه وسلم) کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا، وہ نبی نہیں کذاب و دجال ہوگا۔ احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع واتفاق ہے۔ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کا نزول ہوگا، جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے، تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے امتی بن کر آئیں گے، اس لئے ان کا نزول عقیدہ آخرت نبوت کے منافی نہیں ہے۔