Firo maanaaji al-quraan tedduɗo oo - Eggo maanaaji Alkur'aana e haala Urdu - Muhammad Gunakry.

Tonngoode hello ngoo:close

external-link copy
6 : 76

عَیْنًا یَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ یُفَجِّرُوْنَهَا تَفْجِیْرًا ۟

جو ایک چشمہ ہے(1) ۔ جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اس کی نہریں نکال لے جائیں گے(2) (جدھر چاہیں). info

(1) یعنی کافور ملی شراب، دو چار صراحیوں یا مٹکوں نہیں ہوگی، بلکہ چشمہ ہوگا، یعنی ختم ہونے والی نہیں ہوگی۔
(2) یعنی اس کو جدھر چاہیں گے، موڑ لیں گے، اپنے محلات و منازل میں، اپنی مجلسوں میں اور بیٹھکوں میں اور باہر میدانوں اور تفریح گاہوں میں۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 76

یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا ۟

جو نذر پوری کرتے ہیں(1) اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے.(2) info

(1) یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کرتے ہیں نذر بھی مانتے ہیں تو اسی کے لیے اور پھر اسے پورا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نذر کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ بشرطیکہ معصیت کی نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے ”جس شخص نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا، تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے معصیت الٰہی کی نذر مانی ہے تو، وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے“، یعنی اسے پورا نہ کرے۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب النذر فی الطاعة)
(2) یعنی اس دن سے ڈرتے ہوئے محرمات اور معصیات کا ارتکاب نہیں کرتے۔ برائی پھیل جانے کا مطلب ہے کہ اس روز اللہ کی گرفت صرف وہی بچے گا جسے اللہ اپنے دامن عفو و رحمت میں ڈھانک لے گا۔ باقی سب اس کے شر کی لپیٹ میں ہونگے۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 76

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ۟

اور اللہ تعالیٰ کی محبت(1) میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو. info

(1) یا طعام کی محبت کے باوجود وہ اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں، قیدی اگر غیر مسلم ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے جیسے جنگ بدر کے کافر قیدیوں کی بابت نبی (صلى الله عليه وسلم) نے صحابہ کو حکم دیا کہ ان کی تکریم کرو۔ چنانچہ صحابہ پہلے ان کو کھانا کھلاتے، خود بعد میں کھاتے۔ (ابن کثیر) اسی طرح غلام اور نوکر چاکر بھی اسی ذیل میں آتے ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی آخری وصیت یہی تھی کہ ”نماز اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا“۔ (ابن ماجه، کتاب الوصایا، باب هل أوصی رسول الله صلى الله عليه وسلم)

التفاسير:

external-link copy
9 : 76

اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّلَا شُكُوْرًا ۟

ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری. info
التفاسير:

external-link copy
10 : 76

اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا ۟

بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں(1) جو اداسی اور سختی واﻻ ہوگا. info

(1) حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے قمطریر کے معنی طویل کے کئے ہیں، عبوس، سخت یعنی وہ دن نہایت سخت ہوگا اور سختیوں اور ہولناکیوں کی وجہ سے کافروں پر بڑا لمبا ہوگا (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
11 : 76

فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَلَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّسُرُوْرًا ۟ۚ

پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لیا(1) اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی.(2) info

(1) جیسا کہ وہ اس کے شر سے ڈرتے تھے اور اس سے بچنے کے لئے اللہ کی اطاعت کرتے تھے۔
(2) تازگی چہروں پر ہوگی اور خوشی دلوں میں، جب انسان کا دل مسرت سے لبریز ہوتا ہے تو اس کا چہرہ بھی مسرت سے گلنار ہو جاتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے بارے میں آتا ہے کہ جب آپ (صلى الله عليه وسلم) خوش ہوتے تو آپ کا چہرۂ مبارک اس طرح روشن ہوتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔ (البخاری، کتاب المغازی، باب غزوة تبوک، مسلم، کتاب التوبة)

التفاسير:

external-link copy
12 : 76

وَجَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِیْرًا ۟ۙ

اور انہیں ان کے صبر(1) کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے. info

(1) صبر کا معنی ہے دین کے راستے میں جو تکلفیں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اللہ کی اطاعت میں نفس کی خواہشات اور لذات کو قربان کرنا اور معصیتوں سے اجتناب کرنا۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 76

مُّتَّكِـِٕیْنَ فِیْهَا عَلَی الْاَرَآىِٕكِ ۚ— لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّلَا زَمْهَرِیْرًا ۟ۚ

یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے۔ نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے نہ جاڑے کی سختی.(1) info

(1) زَمْهَرِير، سخت جاڑے کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک ہی موسم رہے گا اور وہ ہے موسم بہار، نہ سخت گرمی اور نہ کڑاکے کی سردی۔

التفاسير:

external-link copy
14 : 76

وَدَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلٰلُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُهَا تَذْلِیْلًا ۟

ان جنتوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے(1) اور ان کے (میوے اور) گچھے نیچے لٹکائے ہوئے ہوں گے.(2) info

(1) گو وہاں سورج کی حرارت نہیں ہوگی، اس کے باوجود درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے یا یہ مطلب ہے کہ ان کی شاخیں ان کے قریب ہونگی۔ (2) یعنی درختوں کے پھل، گوش برآواز فرماں بردار کی طرح انسان کا جب کھانے کو جی چاہے گا تو وہ جھک کر اتنے قریب ہو جائیں گے کہ بیٹھے، لیٹے بھی انہیں توڑ لے۔ ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
15 : 76

وَیُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّاَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِیْرَ ۟ۙ

اور ان پر چاندی کے برتنوں اور ان جاموں کا دور کرایا جائے گا(1) جو شیشے کے ہوں گے.(2) info

(1) یعنی خادم انہیں لے کر جنتیوں کے درمیان پھریں گے۔

التفاسير:

external-link copy
16 : 76

قَوَارِیْرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا ۟

شیشے بھی چاندی کے جن کو (ساقی نے) اندازے سے ناپ رکھا ہوگا.(1) info

(1) یعنی یہ برتن اور آب خورے چاندی اور شیشے سے بنے ہونگے، نہایت نفیس اور نازک۔ گویا یہ صنعت ایسی ہے کہ جس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ہے۔
(2) یعنی ان میں شراب ایسے اندازے سے ڈالی گئی ہوگی کہ جس سے وہ سیراب بھی ہو جائیں، تشنگی محسوس نہ کریں اور برتنوں اور جاموں میں بھی زائد نہ بچی رہے۔ مہمان نوازی کے اس طریقے میں بھی مہمانوں کی عزت افزائی ہی کا اہتمام ہے۔

التفاسير:

external-link copy
17 : 76

وَیُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِیْلًا ۟ۚ

اور انہیں وہاں وه جام پلائے جائیں گے جن کی آمیزش زنجبیل کی ہوگی.(1) info

(1) زَنْجَبِیْل (سونٹھ، خشک ادرک) کو کہتے ہیں۔ یہ گرم ہوتی ہے اس کی آمیزش سے ایک خوشگوار تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں عربوں کی یہ مرغوب چیز ہے۔ چنانچہ ان کے قہوہ میں بھی زنجبیل شامل ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت میں ایک وہ شراب ہوگی جو ٹھنڈی ہوگی جس میں کافور کی آمیزش ہوگی اور دوسری شراب گرم، جس میں زنجبیل کی ملاوٹ ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 76

عَیْنًا فِیْهَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلًا ۟

جنت کی ایک نہر سے جس کا نام سلسبیل ہے.(1) info

(1) یعنی اس شراب زنجبیل کی بھی ایک نہر ہوگی جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
19 : 76

وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ۚ— اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا ۟

اور ان کے ارد گرد گھومتے پھرتے ہوں گے وه کم سن بچے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں(1) جب تو انہیں دیکھے تو سمجھے کہ وه بکھرے ہوئے سچے موتی ہیں.(2) info

(1) شراب کی اوصاف بیان کرنے کے بعد، ساقیوں کا وصف بیان کیا جا رہا ہے ' ہمیشہ رہیں گے 'کا مطلب تو یہ ہے جنتیوں کی طرح ان خادموں کو بھی موت نہیں آئے گی۔ دوسرا یہ کہ ان کا بچپن اور ان کی رعنائی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ وہ بوڑھے نہ ہونگے نہ ان کا حسن جمال متغیر ہوگا۔
(2) حسن و صفائی اور تازگی و شادابی میں موتیوں کی طرح ہونگے، بکھرے ہونے کا مطلب، خدمت کے لئے ہر طرف پھیلے ہوئے اور نہایت تیزی سے مصروف خدمت ہوں گے۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 76

وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْكًا كَبِیْرًا ۟

تو وہاں جہاں کہیں بھی نظر ڈالے گا(1) سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا. info

(1) ثم ظرف مکان ہے، واذا رأیت ثم، أي: هناك یعنی وہاں جنت میں جہاں کہیں بھی دیکھو گے۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 76

عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ ؗ— وَّحُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ۚ— وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا ۟

ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے(1) اور انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا(2)۔ اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا. info

(1) سندس، باریک ریشمی لباس اور استبرق، موٹا ریشم۔
(2) جیسے ایک زمانے میں بادشاہ، سردار اور ممتاز قسم کے لوگ پہنا کرتے تھے۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 76

اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّكَانَ سَعْیُكُمْ مَّشْكُوْرًا ۟۠

(کہا جائے گا) کہ یہ ہے تمہارے اعمال کا بدلہ اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی. info
التفاسير:

external-link copy
23 : 76

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا ۟ۚ

بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے.(1) info

(1) یعنی ایک ہی مرتبہ نازل کرنے کی بجائے حسب ضرورت مختلف اوقات میں نازل کیا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے، یہ تیرا اپنا گھڑا ہوا نہیں ہے، جیسا کہ مشرکین دعویٰ کرتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 76

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا ۟ۚ

پس تو اپنے رب کے حکم پر قائم ره(1) اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہا نہ مان.(2) info

(1) یعنی اس کے فیصلے کا انتظار کرو وہ تیری مدد میں کچھ تاخیر کر رہا ہے تو اس میں اس کی حکمت ہے۔ اس لئے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے۔
(2) یعنی اگر تجھے اللہ کے نازل کردہ احکام سے روکیں تو ان کا کہنا نہ مان، بلکہ تبلیغ ودعوت کا کام جاری رکھ اور اللہ پر بھروسہ رکھ، وہ لوگوں سے تیری حفاظت فرمائے گا، فاجر جو اللہ کی نافرمانی کرنے والا ہو اور کفور جو دل سے کفر کرنے والا ہو اور کفور جو دل سے کفر کرنے والا ہو یا کفر میں حد سے بڑھ جانے والا ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ولید بن مغیرہ ہے جس نے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے کہا تھا کہ اس کام سے باز آجا، ہم تجھے تیرے کہنے کے مطابق دولت مہیا کردیتے ہیں اور عرب کی جس عورت سے تو شادی کرنا چاہے، ہم تیری شادی کرادیتے ہیں۔ (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
25 : 76

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا ۟ۖۚ

اور اپنے رب کے نام کا صبح وشام ذکر کیا کر.(1) info

(1) صبح و شام سے مراد ہے، تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کر۔ یا صبح سے مراد فجر کی نماز اور شام سے عصر کی نماز ہے۔

التفاسير: