(1) لا يَمَسُّهُ، میں ضمیر کا مرجع لوح محفوط ہے اور پاک لوگوں سے مراد فرشتے، بعض نے اس کا مرجع، قرآن کریم کو بنایا ہے یعنی اس قرآن کو فرشتے ہی چھوتےہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوتی۔ مطلب مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ کیونکر ممکن ہے یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔
(1) حدیث سے مراد قرآن کریم ہے مُدَاهَنَةٌ، وہ نرمی جو کفر ونفاق کے مقابلے میں اختیار کی جائے۔ دراں حالیکہ ان کے مقابلے میں سخت تر رویے کی ضرورت ہے۔ یعنی اس قرآن کو اپنانے کے معاملےمیں تمام کافروں کو خوش کرنے کے لیے نرمی اور اعراض کا راستہ اختیار کر رہے ہو۔ حالانکہ یہ قرآن جو مذکورہ صفات کا حامل ہے، اس لائق ہے کہ اسے نہایت خوشی سے اپنایا جائے۔
(1) یعنی مرنے والے کے ہم، تم سے بھی زیادہ قریب ہوتےہیں۔ اپنے علم، قدرت اور رؤیت کے اعتبار سے۔ یا ہم سے مراد اللہ کے کارندے یعنی موت کے فرشتے ہیں جو اس کی روح قبض کرتےہیں۔
(2) یعنی اپنی جہالت کی وجہ سے تمہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ اللہ تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے یا روح قبض کرنے والے فرشتوں کو تم دیکھ نہیں سکتے۔
(1) دَانَ يَدِينُ کے معنی ہیں، ماتحت ہونا، دوسرے معنی ہیں بدلہ دینا۔ یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ کوئی تمہارا آقا اور مالک نہیں جس کے تم زیرفرمان اور ماتحت ہو یاکوئی جزا سزا کا دن نہیں آئے گا، تو اس قبض کی ہوئی روح کو اپنی جگہ پر واپس لوٹا کر دکھاو اور اگرتم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمہارا گمان باطل ہے۔ یقیناً تمہارا ایک آقا ہے اور یقیناً ایک دن آئے گا جس میں وہ آقا ہر ایک کو اس کے عمل کی جزادے گا۔
(1) سورت کے آغاز میں اعمال کےلحاظ سے انسانوں کی جو تین قسمیں بیان کی گئیں تھیں، ان کا پھر ذکر کیا جا رہا ہے۔ یہ ان کی پہلی قسم ہے جنہیں مقربین کے علاوہ سابقین بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ نیکی کے ہرکام میں آگے آگے ہوتے ہیں اور قبول ایمان میں بھی دوسروں سے سبقت کرتے ہیں اور اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ مقربین بارگاہ الٰہی قرار پاتے ہیں۔
(1) یہ تیسری قسم ہے جنہیں آغازسورت میں أَصْحَابُ الْمَشْئَمَة ِکہا گیا تھا، بائیں ہاتھ والے یا حاملین نحوست۔ یہ اپنے کفر ونفاق کی سزا یا اس کی نحوست عذاب جہنم کی صورت میں بھگتیں گے۔
(1) حدیث میں آتا ہے کہ دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں، زباں پر ہلکے اور وزن میں بھاری۔ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِه سَبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ (صحيح بخاري آخری حدیث وصحيح مسلم كتاب الذكر ، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء)۔