(1) ثانی اسم فاعل ہے موڑنے والا عطف کے معنی پہلو کے ہیں یہ یجادل سے حال ہے اس میں اس شخص کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو بغیر کسی عقلی اور نقلی دلیل کے اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے کہ وہ تکبر اور اعراض کرتے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتا ہے جیسے دوسرے مقامات پر اس کیفیت کو ان الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔«وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا» (لقمان:7) «لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ» (المنافقون:5) «اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ» (الاسراء:83)
(1) حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ وہ عسر و یسر کو دیکھے بغیر دین پر قائم رہتے ہیں، نعمتوں سے بہر ور ہوتے ہیں تو شکر ادا کرتے اور تکلیفوں سے دوچار ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں۔ اس کی شان نزول میں ایک مذبذب شخص کا طریقہ بھی اسی طرح کا بیان کیا گیا۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورة الحج) کہ ایک شخص مدینے آتا، اگر اس کے گھر بچے ہوتے، اسی طرح جانوروں میں برکت ہوتی، تو کہتا، یہ دین اچھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کہتا، یہ دین برا ہے۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور)
(1) بعض مفسرین کے نزدیک یدعو، یقول کے معنی میں ہے۔ یعنی غیر اللہ کا پجاری قیامت والے دن کہے گا کہ جس کا نقصان، اس کے نفع کے قریب تر ہے، وہ والی اور ساتھی یقینا برا ہے۔ یعنی اپنے معبودوں کے بارے یہ کہے گا کہ وہاں اس کے امیدوں کے محل ڈھے جائیں گے اور یہ معبود، جن کی بات اس کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے عذاب سے اس بچائیں گے، اس کی شفاعت کریں گے، وہاں خود وہ معبود بھی، اس کے ساتھ ہی جہنم کا ایندھن بنے ہونگے۔ مولیٰ کے معنی ولی اور مددگار کے اور عشیر کےمعنی ہم نشین، ساتھی اور قرابت دار کے ہیں۔ مددگار اور ساتھی تو وہ ہوتا ہے جو مصیبت کے وقت کام آئے، لیکن یہ معبود خود گرفتار عذاب ہوں گے یہ کسی کے کیا کام آئیں گے؟ اس لئے انہیں برا والی اور برا ساتھی کہا گیا۔ ان کی عبادت ضرر ہی ضرر ہے، نفع کا تو اس میں کوئی حصہ ہی نہیں ہے، پھر یہ جو کہا گیا ہے کہ ان کا نقصان، ان کے نفع سے قریب تر ہے، تو ی ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا:«وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ» (سبا:24) ”بےشک ہم (یعنی اللہ کے ماننے والے) یا تم (اس کا انکار کرنے والے) ہدایت پر ہیں، یا کھلی گمراہی میں“۔ ظاہر بات ہے کہ ہدایت پر وہی ہیں جو اللہ کو ماننے والے ہیں۔ لیکن اسے واضح الفاظ میں کہنے کی بجائے کنائے اور استفہام کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جو سامع کے لئے زیادہ موثر اور بلیغ ہوتا ہے۔ یا اس کا تعلق دنیا سے ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ غیر اللہ کو پکارنے سے فوری نقصان تو اس کا ہوا کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ قریب نقصان ہے۔ اور آخرت میں تو اس کا نقصان تحقیق شدہ ہی ہے۔
(1) اس کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص، جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) کی مدد نہ کرے، کیونکہ اس کے غلبہ و فتح سے اسے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ اپنے گھر کی چھت پر رسی لٹکا کر اور اپنے گلے میں اس کا پھندا لے کر اپنا گلا گھونٹ لے، شاید یہ خود کشی اسے غیظ و غضب سے بچا لے جو محمد (صلى الله عليه وسلم) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ کر اپنے دل میں پاتا ہے۔ اس صورت میں سماء سے مراد گھر کی چھت ہوگی۔ دوسرے معنی ہیں کہ ایک رسہ لے کر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو وحی یا مدد آتی ہے، اس کا سلسلہ ختم کرا دے (اگر وہ کر سکتا ہے) اور دیکھے کہ کیا اس کے بعد اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ہے؟ امام ابن کثیر نے پہلے مفہوم کو اور امام شوکانی نے دوسرے مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے اور سیاق سے یہی دوسرا مفہوم زیادہ قریب لگتا ہے۔