ترجمهٔ معانی قرآن کریم - ترجمه‌ى اردو - محمد جوناكرهى

شماره صفحه:close

external-link copy
84 : 3

قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَمَاۤ اُنْزِلَ عَلٰۤی اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۪— لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ ؗ— وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۟

آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اوران کی اوﻻد پر اتارا گیا اور جو کچھ موسیٰ وعیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے، ان سب پر ایمان ﻻئے(1) ، ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔ info

(1) یعنی تمام سچے نبیوں پر ایمان لانا کہ وہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کی طرف سے مبعوث تھے، نیز ان پر جو کتابیں اورصحیفے نازل ہوئے ان کی بابت بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ آسمانی کتابیں تھیں جو واقعی اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ ضروری ہے۔ گو اب عمل صرف قرآن کریم ہی پر ہوگا، کیونکہ قرآن نے پچھلی کتابوں کو منسوخ کر دیا۔

التفاسير:

external-link copy
85 : 3

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ— وَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۟

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔ info
التفاسير:

external-link copy
86 : 3

كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَشَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ ؕ— وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۟

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان ﻻنے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد کافر ہو جائیں، اللہ تعالیٰ ایسے بے انصاف لوگوں کو راه راست پرنہیں ﻻتا۔ info
التفاسير:

external-link copy
87 : 3

اُولٰٓىِٕكَ جَزَآؤُهُمْ اَنَّ عَلَیْهِمْ لَعْنَةَ اللّٰهِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ۟ۙ

ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ info
التفاسير:

external-link copy
88 : 3

خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ۚ— لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ ۟ۙ

جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے، نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ info
التفاسير:

external-link copy
89 : 3

اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا ۫— فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟

مگرجو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔(1) info

(1) انصار میں سے ایک مسلمان مرتد ہوگیا اورمشرکوں سے جا ملا، لیکن جلد ہی اسے ندامت ہوئی اور اس نے لوگوں کے ذریعے سے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) تک پیغام بھجوایا کہ ”هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ“ (کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟) اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا اگرچہ بہت سخت ہے کیونکہ اس نے حق کو پہچاننے کے بعد بغض وعناد اور سرکشی سے حق سے اعراض وانکار کیا۔ تاہم اگر کوئی خلوص دل سے توبہ اوراپنی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے، اس کی توبہ قابل قبول ہے۔

التفاسير:

external-link copy
90 : 3

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ ۚ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ ۟

بے شک جو لوگ(1) اپنے ایمان ﻻنے کے بعد کفر کریں پھر کفر میں بڑھ جائیں، ان کی توبہ ہرگز ہرگز قبول نہ کی جائے گی(2)، یہی گمراه لوگ ہیں. info

(1) اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر ان کا انتقال ہو۔
(2) اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کوبیان فرمایا ہے«وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ» (الشوریٰ: 25)۔ «أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ» (التوبہ:104)۔ ”کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے“، اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ اس لئے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے«وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآنَ» (النساء:18)۔ ”ان کی توبہ (قبول) نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ“۔ حدیث میں بھی ہے «إنَّ اللهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ» (مسنداحمد،ترمذی،بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر) ”اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے“، یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
91 : 3

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّلَوِ افْتَدٰی بِهٖ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ— وَّمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ۟۠

ہاں جو لوگ کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر زمین بھر سونا دے، گو فدیئے میں ہی ہو تو بھی ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے تکلیف دینے واﻻ عذاب ہے اور جن کا کوئی مددگار نہیں.(1) info

(1) حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا (ہاں) اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، مگر تو شرک سے باز نہیں آیا۔ (مسند احمد وھکذا اخرجہ البخاری ومسلم، ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ اس نے اگر دنیا میں کچھ کام بھی کئے ہوں گے تو کفر کی وجہ سے وہ بھی ضائع ہی جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن جدعان کی بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا، کیا یہ اعمال اسے نفع دیں گے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا (نہیں) کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (صحیح مسلم، کتاب الایمان )۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے، تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ اور اگر بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں اور انہیں دے کر عذاب سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا «وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ» ( البقرۃ: 123) ”اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ پہنچائے گی“۔ «لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ» ( سورۂ ابراہیم: 31) ”اس دن میں کوئی خرید وفروخت ہوگی نہ کوئی دوستی (ہی کام آئے گی)“۔

التفاسير: