(1) یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ (1) تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ» (سورة الملك - 7،8) (جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے) اچھلتی ہوگی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑےگی)۔ جہنم کا دیکھنا اور چلانا، ایک حقیقت ہے، استعارہ نہیں۔ اللہ کے لئے اس کے اندر احساس و ادراک کی قوت پیدا کردینا، مشکل نہیں ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ آخر قوت گویائی بھی تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرمائے گا اور وہ «هَلْ مِنْ مَزِيدٍ»کی صدا بلند کرے گی (سورۂ ق: 30)
(1) یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آکر آرزو کریں گے کہ کاش انہیں موت آجائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں، تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع واقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے!
(1) (یہ) اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جوکفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ واطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ واطاعت کا راستہ اختیار کرلیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔
(1) یعنی ایسا وعدہ، جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا، جیسے قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے اپنے ذمے یہ وعدہ واجب کرلیا ہے جس کا اہل ایمان اس سے مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کے لئے اس حسن جزا کو اپنے واسطے ضروری قرار دے لیا ہے۔
(1) دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح علیہما السلام اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعوروادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا۔ اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ! تم نے میرے بندوں کو ا پنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کرکے گمراہ ہوئے تھے؟
(1) یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کارساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کے بجائے ہمیں اپنا ولی اور کارسازسمجھو۔
(2) یہ شرک کی علت ہے کہ دنیا کے مال واسباب کی فراوانی نے انہیں تیری یاد سے غافل کردیا اور ہلاکت و تباہی ان کا مقدر بن گئی۔
(1) یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے براءت کا اعلان کردیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کرسکو؟
(2) ظلم سے مراد وہی شرک ہے، جیسا کہ سیاق سے بھی واضح ہے اور قرآن میں دوسرے مقام پر شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ «إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ» (لقمان: 13)۔
(1) یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔
(2) یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب وتجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔
(3) یعنی ہم نے ا ن انبیا کی اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھا، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے۔ اسی لئے آگے فرمایا (کیا تم صبر کرو گے)؟
(4) یعنی وہ جانتا ہے کہ وحی ورسالت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں؟ «اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ» (الأنعام: 124) حدیث میں بھی آتا ہے رسول کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ بادشاہ نبی بنوں یا بندہ رسول؟ میں نے بندہ رسول بننا پسند کیا (ابن کثیر)۔