- یعنی کھجوریں کھا، چشمے کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔
(2) یہ کہنا بھی اشارے سے تھا، زبان سے نہیں، علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیز ہے۔
(1) ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کر دی، جیسے کہا جاتا ہے يَا أَخَا تَمِيمٍ! يا أخا العرب!، وغیرہ یا تقویٰ وپاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون (عليه السلام) کی طرح انہیں سمجھتے ہوئے، انہیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ایسر التفاسیر وابن کثیر)
(1) اللہ کے دین میں ثابت قدم، یا ہرچیز میں زیادتی، برتری اور کامیابی میرا مقدر ہے یا لوگوں کے لئے نافع، نیکی کے کام کرنے کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔ (فتح القدیر)
(1) صرف والدہ کے ساتھ حسن سلوک کے ذکر سے بھی واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ایک اعجازی شان کی حامل ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ لسلام بھی، حضرت یحیٰی (عليه السلام) کی طرح بَرًّا بِوَالِدَيْهِ (ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا) کہتے، یہ نہ کہتے کہ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔
(2) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں باپ کا خدمت گزار اور اطاعت شعار نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں سرکشی اور قسمت میں بد بختی لکھی ہے، حضرت عیسیٰ (عليه السلام) نے ساری گفتگو ماضی کے صیغوں میں کی ہے حالاں کہ ان تمام باتوں کا تعلق مستقبل سے تھا، کیونکہ ابھی تو وہ شیر خوار بچے ہی تھے۔ یہ اس لئے کہ یہ اللہ کی تقدیر کے اٹل فیصلے تھے کہ گو ابھی یہ معرض ظہور میں نہیں آئے تھے لیکن ان کا وقوع اس طرح یقینی تھا جس طرح کے گزرے ہوئے واقعات شک وشبہ سے بالا ہوتے ہیں۔
(1) یعنی یہ ہیں وہ صفات، جن سے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) متصف کئے گئے تھے نہ کہ ان صفات کے حامل، جو نصاریٰ نے حد سے گزر کر ان کے بارے میں باور کرائیں اور نہ ایسے، جو یہودیوں نے کمی کی اور نقص نکالنے سے کام لیتے ہوئے ان کی بابت کہا۔ اور یہی حق بات ہے۔ جس میں لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔
(1) جس اللہ کی یہ شان اور قدرت ہو اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح اس کے لئے بغیر باپ کے پیدا کر دینا کون سا مشکل امر ہے۔ گویا جو اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی اعجازی ولادت سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی قدرت وطاقت کے منکر ہیں۔
(1) یہاں الاحزاب سے مراد کتاب کے فرقے اور خود عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں باہم اختلاف کیا۔ یہود نے کہا کہ وہ جادوگر اور(نعوذ باللہ) ولد الزنا یعنی یوسف نجار کے بیٹے ہیں۔ نصاریٰ کے نسطوریہ فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ ملکیہ یا سلطانیہ (کیتھولک) فرقے نے کہا وہ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ (تین خداؤں میں سے تیسرے) ہیں اور تیسرے فرقے یعقوبیہ (آرتھوڈکس) نے کہا، وہ اللہ ہیں۔ پس یہودیوں نے تفریط اور تقصیر کی عیسائیوں نے افراط وغلو (الیسرا لتفاسیر، فتح القدیر)
(2) ان کافروں کے لئے جنہوں نے عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں اس طرح اختلاف اور افراط کا ارتکاب کیا، قیامت والے دن جب وہاں حاضر ہوں گے، ہلاکت ہے۔
(1) یہ تعجب کے صیغے ہیں یعنی دنیا میں تو یہ حق کے دیکھنے اور سننے سے اندھے اور بہرے رہے لیکن آخرت میں یہ کیا خوب دیکھنے اور سننے والے ہونگے؟ لیکن وہاں یہ دیکھنا سننا کس کام کا؟