আল-কোৰআনুল কাৰীমৰ অৰ্থানুবাদ - উৰ্দু অনুবাদ - মুহাম্মদ জুনাগঢ়ী

مُلک

external-link copy
1 : 67

تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ ؗ— وَهُوَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُ ۟ۙ

بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے(1) اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے. info

- تبارك، بركة سے ہے، النماء والزيادة، بڑھوتری اور زیادتی کے معنی میں۔ بعض نے معنی کیے ہیں، مخلوقات کی صفات سے بلند اور برتر۔ تفاعل کا صیغہ مبالغے کے لئے ہے۔ "اسی کے ہاتھ میں بادشاہی ہے" یعنی ہر طرح کی قدرت اور غلبہ اسی کو حاصل ہے، وہ کائنات میں جس طرح کا تصرف کرے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، وہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دے، امیر کو غریب اور غریب کو امیر کردے۔ کوئی اس کی حکمت و مشیت میں دخل نہیں دے سکتا۔

التفاسير:

external-link copy
2 : 67

١لَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ— وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ ۟ۙ

جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے(1) ، اور وه غالب (اور) بخشنے واﻻ ہے. info

(1) روح ایک ایسی غیر مرئی چیز ہے جس بدن سے اس کا تعلق واتصال ہو جائے وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق منقطع ہو جائے وہ موت سے ہم کنار ہو جاتا ہے اس نے یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے؟جو اسے ایماء و اطاعت کے لیے استعمال کرے گا اس کے لیے بہترین جزاء ہے اور دوسروں کے لیے عذاب۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 67

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ— مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ؕ— فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ— هَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ۟

جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا(1) ، دوباره (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے.(2) info

(1) یعنی کوئی نقص، کوئی کجی اور کوئی خلل، بلکہ بالکل سیدھے اور برابر ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک ہی ہے متعدد نہیں۔
(2) بعض دفعہ دوبارہ دیکھنے سے کوئی نقص اور عیب نکل آتا ہے۔ اللہ تعالٰی دعوت دے رہا ہے کہ بار بار دیکھو کہ کیا تمہیں کوئی شگاف تو نظر نہیں آتا۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 67

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِیْرٌ ۟

پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاه تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی.(1) info

- یہ مذید تاکید ہے کہ جس سے مقصد اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کو واضح تر کرنا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 67

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ ۟

بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ(1) بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے (دوزخ کا جلانے واﻻ) عذاب تیار کر دیا. info

(1) یہاں ستاروں کے دو مقصد بیان کئے گئے ہیں ایک آسمانوں کی زینت کیونکہ وہ چراغوں سے جلتے ہیں دوسرا کہ شیطان آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ شرارہ بن کر ان پر گرتے ہیں۔ تیسرا مقصد ان کا یہ ہے جسے دوسرے مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے کہ ان سے برو بحر میں راستوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 67

وَلِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ؕ— وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۟

اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وه کیا ہی بری جگہ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
7 : 67

اِذَاۤ اُلْقُوْا فِیْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِیْقًا وَّهِیَ تَفُوْرُ ۟ۙ

جب اس میں یہ ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑے زور کی آواز سنیں گے اور وه جوش مار رہی ہوگی.(1) info

(1) شَھِیْق، اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا پہلی مرتبہ نکالتا ہے، یہ قبیح ترین آواز ہوتی ہے۔ جہنم بھی گدھے کی طرح چیخ اور چلا رہی اور آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی طرح جوش مار رہی ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 67

تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ ؕ— كُلَّمَاۤ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ ۟

قریب ہے کہ (ابھی) غصے کے مارے پھٹ جائے(1) ، جب کبھی اس میں کوئی گروه ڈاﻻ جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے واﻻ کوئی نہیں آیا تھا؟(2) info

(1) یا مارے غیظ وغضب کے اس کے حصے ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے یہ جہنم کافروں کو دیکھ کر غضب ناک ہوگی جس کا شعور اللہ تعالٰی اس کے اندر پیدا فرما دے گا اللہ تعالٰی کے لیے جہنم کے اندر یہ ادراک وشعور پیدا کر دینا کوئی مشکل نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 67

قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَآءَنَا نَذِیْرٌ ۙ۬— فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ ۖۚ— اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ ۟

وه جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نےکچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ تم بہت بڑی گمراہی میں ہی ہو.(1) info

(1) جس کی وجہ سے تمہیں آج جہنم کے عذاب کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔
(2) یعنی ہم نے پیغمبروں کی تصدیق کرنے کی بجائے انہیں جھٹلایا، آسمانی کتابوں کا ہی سرے سے انکار کر دیا حتٰی کہ اللہ کے پیغمبروں کو ہم نے کہا کہ تم بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 67

وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ ۟

اور کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں (شریک) نہ ہوتے.(1) info

(1) یعنی غور اور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو آویزہ گوش بنا لیتے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی عقل سے بھی سوچنے سمجھنے کا کام لیتے تو آج ہم دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 67

فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ— فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ ۟

پس انہوں نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا(1) ۔ اب یہ دوزخی دفع ہوں (دور ہوں).(2) info

(1) جس کی بنا پر مستحق عذاب قرار پائے اور وہ ہے کفر اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب۔
(2) یعنی اب ان کے لئے اللہ اور اس کی رحمت سے دوری ہی دوری ہے۔

التفاسير:

external-link copy
12 : 67

اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِیْرٌ ۟

بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سےغائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور بڑا ﺛواب ہے.(1) info

(1) یہ اہل کفر وتکذیب کے مقابلے میں اہل ایمان کا اور ان نعمتوں کا ذکر ہے جو انہیں قیامت والے دن اللہ کے ہاں ملیں گی۔ بالغیب کا ایک مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو دیکھا تو نہیں لیکن پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہوئے وہ اللہ عذاب سے ڈرتے رہے دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی نظروں سے غائب یعنی خلوتوں میں اللہ سے ڈرتے رہے۔

التفاسير: