আল-কোৰআনুল কাৰীমৰ অৰ্থানুবাদ - উৰ্দু অনুবাদ - মুহাম্মদ জুনাগঢ়ী

পৃষ্ঠা নং:close

external-link copy
19 : 57

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ۖۗ— وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ ؕ— لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ ؕ— وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ۟۠

اللہ اوراس کے رسول پر جو ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق(1) اور شہید ہیں ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے، اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کوجھٹلاتے ہیں وه جہنمی ہیں. info

(1) بعض مفسرین نے یہاں وقف کیا ہے۔ اور آگے وَالشُّهَدَاءُ کو الگ جملہ قرار دیا ہے صدیقیت کمال ایمان اور کمال صدق و صفا کا نام ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ (آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ ہی کی تلاش اور کوشش میں رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے (متفق عليه ، مشكاة ، كتاب الآداب ، باب حفظ اللسان) ایک اور حدیث میں صدیقین کا وہ مقام بیان کیا گیا ہے جو جنت میں انہیں حاصل ہوگا۔ فرمایا ”جنتی، اپنے سے اوپر کے بالاخانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے، جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یامغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو، یعنی ان کے درمیان درجات کا اتنا فرق ہوگا“، صحابہ نےپوچا: یہ انبیاء کے درجات ہوں گے جن کو دوسرے حاصل نہیں کر سکیں گے؟ آپ ﹲ نے فرمایا ”ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی“۔(صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق ، باب ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة) یعنی ایمان اور تصدیقی کا حق ادا کیا۔ (فتح الباری)۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 57

اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ؕ— كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا ؕ— وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ— وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ؕ— وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ۟

خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال واوﻻد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیاده بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں(1) کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وه خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وه بالکل چورا چورا ہو جاتی ہے(2) اور آخرت میں سخت عذاب(3) اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے(4) اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی تو نہیں.(5) info

(1) كُفَّارٌ، کسانوں کو کہا گیا ہے، اس لیے کہ اس کے لغوی معنی ہیں چھپانے والے۔ کافروں کے دلوں میں اللہ کا اور آخرت کا انکار چھپا ہوتا ہے، اس لیے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ اور کاشﺖ کاروں کے لیے یہ لفظ بولا گیا ہے کہ وہ بھی زمین میں بیج بوتے یعنی انہیں چھپا دیتے ہیں۔
(2) یہاں دنیا کی زندگی کو سرعت زوال میں کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کھیتی جب شاداب ہوتی ہے تو بڑی بھلی لگتی ہے، کاشﺖ کار اسے دیکھ کر بڑے خوش ہوتےہیں۔ لیکن وہ بہت ہی جلد خشک اور زرد رو ہوکر چورا چورا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا کی زیب وزینت ، مال اور اولاد دیگر چیزیں انسان کاﺩل لبھاتی ہیں۔ لیکن یہ زندگی چند روزہ ہی ہے۔ اس کو بھی ثبات و قرار نہیں۔
(3) یعنی اہل کفر وعصیان کےلیے، جو دنیا کےکھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔
(4) یعنی اہل ایمان وطاعت کے لیے، جنہوں نے دنیاکو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالامتحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔
(5) لیکن اس کے لیے جواس کےدھوکے میں مبتلا رہا اور آخرت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن جس نے اس حیات دنیا کو طلب آخرت کے لیے استعمال کیا تو اس لیے یہی دنیا، اس سے بہتر زندگی حاصل کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گی۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 57

سَابِقُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۙ— اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ؕ— ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۟

(آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف(1) جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے(2) یہ ان کے لیے بنائی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے(3) اور اللہ بڑے فضل واﻻ ہے.(4) info

(1) یعنی اعمال صالحہ اور توبہ النصوح کی طرف کیونکہ یہی چیزیں مغفرت رب کا ذریعہ ہیں
(2) اور جس کا عرض اتنا ہو، اس کا طول کتنا ہو گا؟ کیونکہ طول، عرض سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔
(3) ظاہر ہے اس کی چاہت اسی کے لیے ہوتی ہے جو کفرومعصیت سے توبہ کرکے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کر لیتاہے، اسی لیے وہ ایسےلوگوں کو ایمان اور اعمال صالحہ کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے۔
(4) وہ جس پر چاہتا ہے،اپنا فضل فرماتا ہے، جس کو وہ کچھ دے، کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے، اسے کوئی دے نہیں سکتا، تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی کریم مطلق اور جواد حقیقی ہے جس کے ہاں بخل کا تصور نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 57

مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا ؕ— اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللّٰهِ یَسِیْرٌ ۟ۙ

نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے(1) نہ (خاص) تمہاری جانوں میں(2)، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے(3)، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے. info

(1) مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات ارضی وسماوی۔
(2) مثلاً بیماریاں، تعب وتکان اور تنگ دستی وغیرہ۔
(3) یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی سب باتیں لکھ دیں ہیں۔ جیسے حدیث میں ہے۔ نبی کریم ﹲ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا : قَدَّرَ اللهُ الْمَقَادِيرَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنةٍ (صحيح مسلم، كتاب القدر ، باب حجاج آدم وموسى عليهما السلام) ”اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں“۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 57

لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ ؕ— وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ ۟ۙ

تاکہ تم اپنے سے فوت شده کسی چیز پر رنجیده نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کرده چیز پر اترا جاؤ(1) ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا. info

(1) یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے، وہ وہ غم اور خوشی ہے جو انسان کو ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے، ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پرخوش ہونا، یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن مومن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے۔ جزع فزع کرنے سے اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اور راحت پر، اتراتا نہیں ہے، اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ یہ صرف اس کی اپنی سعی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا فضل وکرم اور اس کا احسان ہے۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 57

١لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ؕ— وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ۟

جو (خود بھی) بخل کریں اور دوسروں کو (بھی) بخل کی تعلیم دیں۔ سنو! جو بھی منھ پھیرے(1) اللہ بےنیاز اور سزاوار حمد وﺛنا ہے. info

(1) یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے، کیونکہ اصل بخل یہی ہے۔

التفاسير: