আল-কোৰআনুল কাৰীমৰ অৰ্থানুবাদ - উৰ্দু অনুবাদ - মুহাম্মদ জুনাগঢ়ী

পৃষ্ঠা নং:close

external-link copy
48 : 39

وَبَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ ۟

جو کچھ انہوں نے کیا تھا اس کی برائیاں ان پر کھل پڑیں گی(1) اور جس کا وه مذاق کرتے تھے اور وه انہیں آ گھیرے گا.(2) info

(1) یعنی دنیا میں جن محارم و مآثم کا وہ ارتکاب کرتے رہے تھے، اس کی سزان کے سامنے آجائے گی۔
(2) وہ عذاب انہیں گھیر لے گا جسے وہ دنیا میں ناممکن سمجھتےتھے، اس لیے کہ اس کا اسہتزا اڑایا کرتے تھے۔

التفاسير:

external-link copy
49 : 39

فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ؗ— ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا ۙ— قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ ؕ— بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟

انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے(1) ، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرمادیں تو کہنے لگتا ہے کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں(2)، بلکہ یہ آزمائش ہے(3) لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں.(4) info

(1) یہ انسان کا بہ اعتبار جنس، ذکر ہے۔ یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری، فقروفاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تواس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کےسامنے گڑگڑاتا ہے۔
(2) یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم وہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔
(3) یعنی بات وہ نہیں ہے جو توسمجھ رہا یابیان کر رہا ہے، بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یاکفر؟
(4) اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔

التفاسير:

external-link copy
50 : 39

قَدْ قَالَهَا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَاۤ اَغْنٰی عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ۟

ان سے اگلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں پس ان کی کارروائی ان کے کچھ کام نہ آئی.(1) info

(1) جس طرح قارون نےبھی کہا تھا، لیکن بالآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ فَمَا أَغْنَى میں مَا استہفامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی۔ دونوں طرح معنی صحیح ہے۔

التفاسير:

external-link copy
51 : 39

فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ؕ— وَالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰۤؤُلَآءِ سَیُصِیْبُهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا ۙ— وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۟

پھر ان کی تمام برائیاں(1) ان پر آ پڑیں، اوران میں سے بھی جو گناه گار ہیں ان کی کی ہوئی برائیاں بھی اب ان پر آ پڑیں گی، یہ (ہمیں) ہرا دینے والے نہیں.(2) info

(1) برائیوں سے مراد ان کی برائیوں کی جزا ہے، ان کو مشاکلﺖ کے اعتبار سے سیئات کہا گیا ہے، ورنہ برائی کی جزابرائی نہیں ہے۔ جیسے وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا میں ہے۔ (فتح القدیر)۔
(2) یہ کفارمکہ کو تنبیہ ہے۔ چنانچہ ایساہی ہوا، یہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح قحط، قتل و اسارت وغیرہ سے دوچار ہوئے، اللہ کی طرف سے آئےہوئے ان عذابوں کویہ روک نہیں سکے۔

التفاسير:

external-link copy
52 : 39

اَوَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ۟۠

کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے روزی کشاده کر دیتا ہے اور تنگ (بھی)، ایمان ﻻنے والوں کے لیے اس میں (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں.(1) info

(1) یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں بھی اللہ کی توحید کے دلائل ہیں یعنی اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں صرف اسی کا حکم و تصرف چلتا ہے، اسی کی تدبیر موثر اور کارگر ہے، اسی لیے وہ جس کو چاہتا ہے، رزق فراواں سے نواز دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقر وتنگ دستی میں مبتلا کر دیتاہے۔ اس کے ان فیصلوں میں، جو اس کی حکمت و مشیت پر مبنی ہوتے ہیں ، کوئی دخل انداز ہو سکتا ہےنہ ان میں ردوبدل کر سکتا ہے۔ تاہم یہ نشانیاں صرف اہل ایمان ہی کے لیے ہیں کیونکہ وہی ان پر غور و فکر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرتےہیں۔

التفاسير:

external-link copy
53 : 39

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ— اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۟

(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے.(1) info

(1) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ”اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو“ کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا تو استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کیے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں تو بہت زیادہ گناہ گار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچےدل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبہ النصوح کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے۔ کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زناکاری کا ارتکاب کیا تھا، یہ نبی ﹲ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ ﹲ کی دعوت، صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطاکار ہیں، اگر ہم ایمان لے آئے تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے، جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ (صحیح بخاری،تفسیر سورۂ زمر) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ، اس کے احکام و فرائض کی مطلق پرواہ نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بے دردی سے پامال کرو۔ اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے۔ یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غَفُورٌ رَحِيمٌ ہے، وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں متعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا، مثلاً نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ (الحجر:50،49) غالباً یہی وجہ ہے کہ یہاں آیت کا آغاز يَا عِبَادِي (میرے بندوں) سےفرمایا، جس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ جو ایمان لاکر یا سچی توبہ کرکے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جائے گا، اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں گے تو وہ معاف فرما دے گا، وہ اپنے بندوں کے لیے یقیناً غفور رحیم ہے۔ جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کے توبہ کا واقعہ ہے، (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء - مسلم ، كتاب التوبة ، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله)۔

التفاسير:

external-link copy
54 : 39

وَاَنِیْبُوْۤا اِلٰی رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ۟

تم (سب) اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آ جائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے. info
التفاسير:

external-link copy
55 : 39

وَاتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ۟ۙ

اور پیروری کرو اس بہترین چیزکی جو تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو.(1) info

(1) یعنی عذاب آنے سے قبل توبہ اور عمل صالح کااﮨتمام کرلو، کیونکہ جب عذاب آئےگا تو اس کا تمہیں علم و شعور بھی نہیں ہوگا، اس سےمراد دنیوی عذاب ہے۔

التفاسير:

external-link copy
56 : 39

اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ ۟ۙ

(ایسا نہ ہو کہ) کوئی شخص کہے ہائے افسوس! اس بات پر کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حق میں کوتاہی کی(1) بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا. info

(1) فِي جَنْبِ الله ِ کا مطلب، اللہ کی اطاعت یعنی قرآن اور اس پر عمل کرنےمیں کوتاہی ہے۔ یا جَنْبٌ کےمعنی قرب اور جوار کے ہیں۔ یعنی اللہ کا قرب اور اس کاجوار (یعنی جنت) طلب کرنے میں کوتاہی کی۔

التفاسير: