(1) یعنی دنیا میں جن محارم و مآثم کا وہ ارتکاب کرتے رہے تھے، اس کی سزان کے سامنے آجائے گی۔
(2) وہ عذاب انہیں گھیر لے گا جسے وہ دنیا میں ناممکن سمجھتےتھے، اس لیے کہ اس کا اسہتزا اڑایا کرتے تھے۔
(1) یہ انسان کا بہ اعتبار جنس، ذکر ہے۔ یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری، فقروفاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تواس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کےسامنے گڑگڑاتا ہے۔
(2) یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم وہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔
(3) یعنی بات وہ نہیں ہے جو توسمجھ رہا یابیان کر رہا ہے، بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یاکفر؟
(4) اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔
(1) جس طرح قارون نےبھی کہا تھا، لیکن بالآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ فَمَا أَغْنَى میں مَا استہفامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی۔ دونوں طرح معنی صحیح ہے۔
(1) برائیوں سے مراد ان کی برائیوں کی جزا ہے، ان کو مشاکلﺖ کے اعتبار سے سیئات کہا گیا ہے، ورنہ برائی کی جزابرائی نہیں ہے۔ جیسے وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا میں ہے۔ (فتح القدیر)۔
(2) یہ کفارمکہ کو تنبیہ ہے۔ چنانچہ ایساہی ہوا، یہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح قحط، قتل و اسارت وغیرہ سے دوچار ہوئے، اللہ کی طرف سے آئےہوئے ان عذابوں کویہ روک نہیں سکے۔
(1) یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں بھی اللہ کی توحید کے دلائل ہیں یعنی اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں صرف اسی کا حکم و تصرف چلتا ہے، اسی کی تدبیر موثر اور کارگر ہے، اسی لیے وہ جس کو چاہتا ہے، رزق فراواں سے نواز دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقر وتنگ دستی میں مبتلا کر دیتاہے۔ اس کے ان فیصلوں میں، جو اس کی حکمت و مشیت پر مبنی ہوتے ہیں ، کوئی دخل انداز ہو سکتا ہےنہ ان میں ردوبدل کر سکتا ہے۔ تاہم یہ نشانیاں صرف اہل ایمان ہی کے لیے ہیں کیونکہ وہی ان پر غور و فکر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرتےہیں۔
(1) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ”اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو“ کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا تو استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کیے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں تو بہت زیادہ گناہ گار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچےدل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبہ النصوح کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے۔ کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زناکاری کا ارتکاب کیا تھا، یہ نبی ﹲ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ ﹲ کی دعوت، صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطاکار ہیں، اگر ہم ایمان لے آئے تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے، جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ (صحیح بخاری،تفسیر سورۂ زمر) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ، اس کے احکام و فرائض کی مطلق پرواہ نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بے دردی سے پامال کرو۔ اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے۔ یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غَفُورٌ رَحِيمٌ ہے، وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں متعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا، مثلاً نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ (الحجر:50،49) غالباً یہی وجہ ہے کہ یہاں آیت کا آغاز يَا عِبَادِي (میرے بندوں) سےفرمایا، جس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ جو ایمان لاکر یا سچی توبہ کرکے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جائے گا، اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں گے تو وہ معاف فرما دے گا، وہ اپنے بندوں کے لیے یقیناً غفور رحیم ہے۔ جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کے توبہ کا واقعہ ہے، (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء - مسلم ، كتاب التوبة ، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله)۔
(1) یعنی عذاب آنے سے قبل توبہ اور عمل صالح کااﮨتمام کرلو، کیونکہ جب عذاب آئےگا تو اس کا تمہیں علم و شعور بھی نہیں ہوگا، اس سےمراد دنیوی عذاب ہے۔
(1) فِي جَنْبِ الله ِ کا مطلب، اللہ کی اطاعت یعنی قرآن اور اس پر عمل کرنےمیں کوتاہی ہے۔ یا جَنْبٌ کےمعنی قرب اور جوار کے ہیں۔ یعنی اللہ کا قرب اور اس کاجوار (یعنی جنت) طلب کرنے میں کوتاہی کی۔