আল-কোৰআনুল কাৰীমৰ অৰ্থানুবাদ - উৰ্দু অনুবাদ - মুহাম্মদ জুনাগঢ়ী

لقمان

external-link copy
1 : 31

الٓمّٓ ۟ۚ

الم.(1) info

(1) اس کے آغاز میں بھی یہ حروف مقطعات ہیں، جن کےمعنی ومراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے اس کےدو فوائد بڑے اہم بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب وتالیف پایا ہے جس کے مثل تالیف پیش کرنے سےعرب عاجز آگئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اور جس پیغمبر پر یہ نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے، جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اس کی محتاج ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔ دوسرا، یہ کہ مشرکین اپنےساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے کہ مبادا وہ اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات سےفرمایا تاکہ وہ اس کے سننے پر مجبور ہو جائیں کیونکہ یہ انداز بیاں نیا اور اچھوتا تھا۔ (ایسر التفاسیر) واللہ اعلم۔

التفاسير:

external-link copy
2 : 31

تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ ۟ۙ

یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
3 : 31

هُدًی وَّرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِیْنَ ۟ۙ

جو نیکو کاروں کے(1) لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے. info

(1) مُحْسِنِينَ، مُحْسِنٌ کی جمع ہے۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنےوالا، والدین کے ساتھ، رشتے داروں کےساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ۔ دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکو کار۔ تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع وخضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل (عليه السلام) میں ہے، أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ قرآن ویسے تو سارے جہاں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اس طرح فرمایا۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 31

الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ۟ؕ

جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں.(1) info

(1) نماز، زکوٰۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین ومتقین تمام فرائض وسنن بلکہ مستحبات تک کی پابندی کرتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 31

اُولٰٓىِٕكَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟

یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں.(1) info

(1) فلاح کے مفہوم کے لئےدیکھئے سورۂ بقرۃ اور مومنون کا آغاز۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 31

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ۖۗ— وَّیَتَّخِذَهَا هُزُوًا ؕ— اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ ۟

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں(1) کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں(2)، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے واﻻ عذاب ہے.(3) info

(1) اہل سعادت، جو کتاب الٰہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد ان اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے جو کلام الٰہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں، البتہ ساز وموسیقی، نغمہ وسرور اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لَهْوَ الْحَدِيثِ سے مراد گانا بجانا، اس کا ساز وسامان اور آلات، سازو موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے، کہانیاں، افسانے، ڈرامے، ناول اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پرچارک اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لئے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن واسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلوکارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب، خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔
(2) ان تمام چیزوں سے یقیناً انسان اللہ کے راستے سےگمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو استہزا وتمسخر کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
(3) ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اسی عذاب مہین کے مستحق ہوں گے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ.

التفاسير:

external-link copy
7 : 31

وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِیْۤ اُذُنَیْهِ وَقْرًا ۚ— فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۟

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منھ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں(1) ، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے. info

(1) یہ اس شخص کا حال ہےجو مذکورہ لہوولعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرانیہ اور اللہ ورسول کی باتیں سن کر بہرہ بن جاتا ہے حالانکہ وہ بہرہ نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیوں کہ اس کے سننے سےوہ ایذا محسوس کرتا ہے، اس لئے اس سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کر دے۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 31

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ ۟ۙ

بیشک جن لوگوں نےایمان قبول کیا اور کام بھی نیک (مطابق سنت) کیے ان کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
9 : 31

خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ— وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا ؕ— وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟

جہاں وه ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا سچا وعده(1) ہے، وه بہت بڑی عزت وغلبہ واﻻ اور کامل حکمت واﻻ ہے. info

(1) یعنی یہ یقیناً پورا ہوگا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وَاللهُ لا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 31

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ ؕ— وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ ۟

اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انہیں دیکھ رہے(1) ہو اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وه تمہیں جنبش نہ دے(2) سکے اور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے(3)۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے.(4) info

(1) تَرَوْنَها، اگر عَمَدٌ کی صفت ہو تو معنی ہوں گے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔
(2) رَوَاسِيَ، رَاسِيَة کی جمع ہے جس کے معنی ثَابِتَةٌ کے ہیں۔ یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لئے آگے فرمایا، أَنْ تَمِيدَ بِكُم يَعْنِي كَرَاهَةَ أَنْ تَمِيدَ (تَمِيلَ) بِكُمْ أَوْ لِئَلا تَمِيدَ یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لئے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیئے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لئے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔
(3) یعنی انواع واقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔
(4) زَوْجٍ یہاں صِنْفٍ کے معنی میں ہے یعنی ہرقسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم، ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 31

هٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ؕ— بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۟۠

یہ ہے اللہ کی مخلوق(1) اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ(2) (کچھ نہیں)، بلکہ یہ ﻇالم کھلی گمراہی میں ہیں. info

(1) هَذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کے ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گزشتہ آیات میں ذکر ہوا۔
(2) یعنی جن کی تم عبادت کرتے اور انہیں مدد کے لئے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان وزمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟ کوئی ایک چیز تو بتلاؤ؟ مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لئے پکارا جائے۔

التفاسير: