(1) مُحْكَمَاتٌ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر ونواہی، احکام ومسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا۔ اس کے برعکس آيَاتٌ مُتَشَابِهَاتٌ ہیں مثلاً اللہ کی ہستی، قضا وقدر کے مسائل، جنت دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اسی لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے (فتنے) برپا کرتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نےحضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو عبداللہ اور نبی کہا ہے یہ واضح اور محکم بات ہے۔ لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جوکہا گیا ہے، اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدلال کرتے ہیں۔ یہی حال اہل بدعت کاہے۔ قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں، وہ انہی مُتَشَابِهَاتٌ کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات مُحْكَمَاتٌ کوبھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے مُتَشَابِهَاتٌ بناتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهم نہ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پرعمل کرتا ہے اورمُتَشَابِهَاتٌ کے مفہوم کو بھی (اگر اس میں اشتباہ ہو) محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی کو (اصل کتاب) قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد کی گمراہی سے بھی۔جَعَلَنَا اللهُ منْهُمْ
(2) تاویل کے ایک معنی تو ہیں (کسی چیز کی اصل حقیقت) اس معنی کے اعتبار سےإِلا اللهُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طورپرصرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تاویل کے دوسرے معنی ہیں ”کسی چیزکی تفسیر وتعبیر اوربیان وتوضیح“ اس اعتبار سے الا اللہ پر وقف کے بجائے «وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ» پر بھی وقف کیا جاسکتاہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر وتوضیح کا علم رکھتے ہیں۔ ”تاویل“ کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں۔ (ملخص ازابن کثیر)
(1) حَيّ اور قَيُّومٌ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں حی کا مطلب وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، اسے موت اور فنا نہیں۔ قیوم کا مطلب ساری کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتےتھے۔ گویا ان کو کہا جا رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانۂ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصے بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ، یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہوتا تو انہیں مخلوق کے بجائے الوہی صفات کا حامل اور قدیم ہونا چاہیےتھا۔ نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے۔ اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہو چکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو وہ رد نہیں ہوتی۔ ایک یہی آل عمران کی آیت، دوسری آیت الکرسی میں «اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» اور تیسری سورء طٰہ میں «وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ» (ابن کثیر۔ تفسیر آیت الکرسی )
(1) یعنی اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔
(1) اس سے پہلے انبیاء پرجو کتابیں نازل ہوئیں۔ یہ کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے یعنی جوباتیں ان میں درج تھیں، ان کی صداقت اور ان میں بیان کردہ پیش گوئیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن کریم بھی اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پہلے بہت سی کتابیں نازل فرمائیں۔ اگر یہ کسی اور کی طرف سے یا انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا تو ان میں باہم مطابقت کے بجائے مخالفت ہوتی۔
(2) یعنی اپنے اپنے وقت میں تورات اور انجیل بھی یقیناً لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ تھیں، اس لئے کہ ان کے اتارنے کا مقصد ہی یہی تھا۔ تاہم اس کے بعد وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ دوبارہ کہہ کر وضاحت فرما دی۔ کہ مگر اب تورات وانجیل کادور ختم ہو گیا، اب قرآن نازل ہو چکا ہے، وہ فرقان ہے اور اب صرف وہی حق وباطل کی پہچان ہے، اس کو سچا مانے بغیر عنداللہ کوئی مسلمان اور مومن نہیں۔
(1) خوبصورت یا بدصورت، مذکر یا مونث، نیک بخت یا بدبخت، ناقص الخلقت یا تام الخلقت۔ جب رحم مادر میں یہ سارے تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے تو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) الٰہ کس طرح ہو سکتے ہیں جو خودبھی اسی مرحلۂ تخلیق سے گزر کر دنیا میں آئے ہیں جس کا سلسلہ اللہ نے رحم مادر میں قائم فرمایا ہے۔
(1) مُحْكَمَاتٌ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر ونواہی، احکام ومسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا۔ اس کے برعکس آيَاتٌ مُتَشَابِهَاتٌ ہیں مثلاً اللہ کی ہستی، قضا وقدر کے مسائل، جنت دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اسی لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے (فتنے) برپا کرتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نےحضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو عبداللہ اور نبی کہا ہے یہ واضح اور محکم بات ہے۔ لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جوکہا گیا ہے، اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدلال کرتے ہیں۔ یہی حال اہل بدعت کاہے۔ قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں، وہ انہی مُتَشَابِهَاتٌ کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات مُحْكَمَاتٌ کوبھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے مُتَشَابِهَاتٌ بناتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهم نہ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پرعمل کرتا ہے اورمُتَشَابِهَاتٌ کے مفہوم کو بھی (اگر اس میں اشتباہ ہو) محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی کو (اصل کتاب) قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد کی گمراہی سے بھی۔جَعَلَنَا اللهُ منْهُمْ
(2) تاویل کے ایک معنی تو ہیں (کسی چیز کی اصل حقیقت) اس معنی کے اعتبار سےإِلا اللهُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طورپرصرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تاویل کے دوسرے معنی ہیں ”کسی چیزکی تفسیر وتعبیر اوربیان وتوضیح“ اس اعتبار سے الا اللہ پر وقف کے بجائے «وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ» پر بھی وقف کیا جاسکتاہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر وتوضیح کا علم رکھتے ہیں۔ ”تاویل“ کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں۔ (ملخص ازابن کثیر)