আল-কোৰআনুল কাৰীমৰ অৰ্থানুবাদ - উৰ্দু অনুবাদ - মুহাম্মদ জুনাগঢ়ী

مریم

external-link copy
1 : 19

كٓهٰیٰعٓصٓ ۟

کہیعص.(1) info
التفاسير:

external-link copy
2 : 19

ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّا ۟ۖۚ

یہ ہے تیرے پروردگار کی اس مہربانی کا ذکر جو اس نے اپنے بندے زکریا(1) پر کی تھی. info

(1) حضرت زکریا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا۔ (صحيح مسلم، باب من فضائل زكريا)

التفاسير:

external-link copy
3 : 19

اِذْ نَادٰی رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا ۟

جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی.(1) info

(1) خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع وانابت اور خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انہیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہو چکے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 19

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّلَمْ اَكُنْ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِیًّا ۟

کہ اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے(1) ، لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا.(2) info

(1) یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف وکبر (بڑھاپے) کا اظہار ہے۔
(2) اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 19

وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَكَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ۟ۙ

مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے(1) ، میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے(2) وارث عطا فرم. info

(1) اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ وارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز وانحراف نہ اختیار کرلیں۔
(2) ”اپنے پاس سے“ کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہو چکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 19

یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ ۗ— وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ۟

جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کا بھی جانشین اور میرے رب! تو اسے مقبول بنده بنا لے. info
التفاسير:

external-link copy
7 : 19

یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ ١سْمُهٗ یَحْیٰی ۙ— لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ۟

اے زکریا! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحيٰ ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا.(1) info

(1) اللہ تعالٰی نے نہ صرف دعا قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرما دیا۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 19

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا ۟

زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، جبکہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں.(1) info

(1) عَاقِرٌ اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِيًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا (عليه السلام) کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی (عليه السلام) اور حضرت عیسیٰ (عليه السلام) آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
9 : 19

قَالَ كَذٰلِكَ ۚ— قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَّقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَیْـًٔا ۟

ارشاد ہوا کہ وعده اسی طرح ہو چکا، تیرے رب نے فرما دیا ہے کہ مجھ پر تو یہ بالکل آسان ہے اور تو خود جبکہ کچھ نہ تھا میں تجھے پیدا کر چکا ہوں.(1) info

(1) فرشتوں نے حضرت زکریا کا تعجب دور کرنے کے لئے کہا کہ اللہ تعالٰی نے تجھے بیٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے مطابق یقیناً تجھے بیٹا ملے گا، اور یہ اللہ کے لئے قطعاً مشکل کام نہیں ہے کیونکہ جب وہ تجھے نیست سے ہست کر سکتا ہے تو تجھے ظاہری اسباب سے ہٹ کر بیٹا بھی دے سکتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 19

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً ؕ— قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ۟

کہنے لگے میرے پروردگار میرے لئے کوئی علامت مقرر فرما دے، ارشاد ہوا کہ تیرے لئے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تو تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکے گا.(1) info

(1) راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہوگی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آ گئے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 19

فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤی اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّعَشِیًّا ۟

اب زکریا (علیہ السلام) اپنے حجرے(1) سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں اشاره کرتے ہیں کہ تم صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو.(2) info

(1) مِحْرَابٌ سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْبٌ سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔
(2) صبح وشام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح وتمحید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔

التفاسير: